فطرت کا انتقام....
انسان جب بھی فطرت سے بغاوت کرتا ھے فطرت کے انتقام کا شکارضرور ھوتا ھے
آج بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگاۓ جارھےتھے اگر کچھ وقت ماضی میں جھانکا جاۓ تو ان حفاظتی ٹیکہ جات کا کوئی وجود نظر نہیں آتا تھا مگر آج جس طرح طب جدید نئے امراض دریافت کررھی حفاظتی ٹیکہ جات کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رھی ھے ایسا کیوں ھورھا ھے؟ کیا انسان بدل گیا ھے؟ یا امراض؟ یا زمانہ؟
ھربچہ جس طرح فطرت سلیم پر پیدا ھوتاھے اور یہ اس کے والدین ھی ھوتے جو اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ھیں اسی طرح ھی صحت کا معاملہ ھے ماں کے دودھ پرپلنے والے بچے اپنے اندر قوت مدافعیت کا وسیع خزانہ رکھتے ھیں اور انہیں مصنوعی حفاظتی ویکیسین کی ضرورت کم ھی ھوتی ھے مگرجب سے انسان نے فطرت سے بغاوت کی اور ڈبۓ کا دودھ بھینس گاۓ یا بکری کے دودھ کو ماں کے دودھ پر فوقیت دی تو اس سے خوفناک نتائج برآمد ھونے لگے ایسے بچے اگرایک طرف قوت مدافعیت سے عاری ھونے لگے تو دوسری طرف انہیں جو دودھ دیا گیا تو ان میں وھی عادات اور بیماری پیدا ھونے لگیں جو دودھ کے ماخذ میں ھوتی ھیں مثلا" ڈبۓ پر پلنے والے بے جس قوت مدافعیت سے عاری ھوتے ھیں
بھینس کے دودھ پرپلنے والے بچے دل کے امراض کا شکار ھوتے ھیں بکری کے دودھ پر پلنے والے بچے قبل ازوقت جوان اور بچیاں چہرۓ پر بالوں کے مرض کا شکار ھوجاتی ھیں غرض بچہ جس جانور کے دودھ پر پل کر جوان ھوتا ھے تو اس جانور کی عادات بھی اس کی صفات میں شامل ھو جاتی ھیں
0 Comments