مراقبہ سے کیسے روحانی رحمانی طاقتیں حاصل ہوتی ہیں اور غیر مسلم بھی اس مراقبہ والے عمل کہ ذریعے کیسے چمتکار حاصل کرنے ہیں ۔۔؟؟؟*
*مراقبہ کا لفظی مطلب ہے انتظار کرنا۔ لفظ مراقب رقیب سے بھی نکلا ہے اللہ تعالیٰ کی نگہبانی میں آجانا۔ مراقبہ کہتے ہیں سب سے کٹ کے اللہ کے دھیان میں بیٹھ جانا۔ مراقبہ یکسوئی کیلیئے ضروری ہے۔ تاکہ انسان یکسوئی حاصل کرنے کا طریقہ سیکھ جائے۔ مراقبہ بنیادی طور پر وہ فیوض اور رحمتیں جو اللہ تعالی کی متواتر اس کا ئینات میں آ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ کائینات چل رہی ہے۔ ان کو حاصل کرنے کا نام ہے۔ مراقبے مختلف قسم کے ہوتے ہیں، دوسرے لوگ بھی مراقبے کرتے ہیں۔ غیر مسلم بھی مراقبے کرتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کی انرجیز ( طاقت ) حاصل کرتے ہیں۔ رنگوں کی روشنیوں کے مراقبے کرتے ہیں۔ذہن کے سکون کے لیے مراقبے کرتے ہیں۔دنیاوی مفادات کے لئے مراقبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایک چیز کو آپ مختلف چیزوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔لیکن ہم جو مراقبہ کرتے ہیں ان تمام چیزوں کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی محبت کو بھی حاصل کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس بھی قوت صحت طاقت کا مراقبہ ہے۔ اس سے ہم قوت صحت طاقت اور انرجی حاصل کرتے ہیں۔ بیماری دور کرتے ہیں۔ مراقبہ یہ ہے کہ "نہ ہم کسی کے نہ کوئی ہمارا ، ہم سب اسی اللہ کے اور وہی اللہ ہمارا" ۔ ہم مراقبہ سے پہلے ہمارے اندر کا جو سسٹم ہے (جو روحانی رحمتیں حاصل کرنے کا سسٹم ہے) اس کو پہلے ہم ایکٹیویٹ کرتے ہیں۔ ہمارا مراقبہ اس سسٹم کو ایکٹیویٹ کرتا ہے۔ جبکہ اوروں کا مراقبہ جو ہے وہ محص تصوّرات یہ ہے کہ وہ رنگ اور روشنی کا تصور کر کے اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ اور مختلف قسم کی روشنیوں اور رنگوں سے وہ قوت حاصل کرتے ہیں۔*
*کوئی مزئقہ نہیں۔*
*لیکن ہمارا مراقبہ یہ ہے کہ ہم جو ہمارے سینے کے اندر روحانی کھڑکیاں رکھی ہوئی ہیں جنھیں لطائف کہتے ہیں جن کو شرح صدر کہتے ہیں۔ (سینے کا کھل جانا)۔جس کے لیئے تمام پیغمبر آئے اور جس کے لیے قرآنِ کریم بار بار کہتا ہے کہ سینہ کھل گیا تو اسلام پہ چلنا آسان ہو جائے گا۔بھلاجسکا سینہ کھول دیں اللہ اسلام کے لیے تو اللہ اس کو اپنی طرف سے ایک نور عطا فرماتے ہیں (ویژن) عطا فرماتے ہیں۔تو سینے کے اندر کوئی چیز موجود ہے نا جس کو کھولنے کی بات کی گئی ہے ۔اس کو ہم لطائف کا کھولنا کہتے ہیں۔ تو قرآن کریم ریفرنس بک ہے ڈیٹیل بک نہیں ہے، قرآن کریم اشارے بیان کرتی ہے ڈیٹیل اس کی غورو فکر اور تدبرّ سے حاصل ہوتی ہے ،اگر ہم چاہیں کے سارے کے سارے لطائف کا علم ہم کو قرآن سے حاصل ہو جائے تو یہ نا ممکن ہے۔لیکن قرآن کریم بہر حال لطائف کی طرف تو اشارہ کرتی ہے قرآن کریم سینے کے اندر ان کو نشانی کے طور پر لیتی ہے جن کو ہم لطائف کہتے ہیں۔ جب وہ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ" آپ ہمیں کوئی فرشتہ دکھا دیں جو آپﷺ کے پاس اُترا ہو۔یا کتاب آپﷺ کے پاس چھپی چھپائی آ جائے، جو ہم دیکھ لیں۔یا آپﷺ کے پاس ایک بہت بڑا باغ ہو تا، یہ تو نشانیاں مانگتے تھے۔تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِستعداد کو یکسر مسترد نہیں کیا۔ اُنھیں کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم یہ نشانیاں چاہتے ہو دیکھنا چاہتے ہو تو اُن نشانیوں کے جو ذرائع ہیں اُن کو آپ اکٹیویٹ کر لیں۔اُن کو اکٹیویٹ کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اُن لوگوں کے پاس جاؤ جن کو ہم نے یہ علوم دیئے ہیں!*
*ترجمہ:بلکہ وہ آئیتیں ہماری واضِع نشانیاں سینوں کے اندرموجود ہیں جن کو ہم نے علم دیا ہے وہ ان کو کھول کر بتائیں گے۔*
*تشریح:اس سے مراد یہ جو ڈیمانڈ کر رہے ہیں یہ جو لوگ مطالبے کر رہے ہیں کہ ہمیں نشانی دکھاؤ۔بلکہ ہماری واضع نشانیاں بلکل شک و شبہ کے بغیر سینوں کے اندر موجود ہیں۔جن کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں اُن کے لیے اپنے سینے کھول لیں۔ اندر کی اپنی آنکھ کھول لیں۔تو یہ نشانیاں اِن کو نظر آجائیں گی۔جن کو ہم نے علم یا ہے وہ اِن کو کھولنے کا طریقہ بتائیں گے۔یہ جو لطائف آپ کو بتائے جاتے ہیں یہ ایک روحانی سلسلہ شروع ہی سے چلا آرہا ہے۔یہ پیغمبر اِس سینے کو کھولنے کی بات کرتے رہے ہیں اِس سینے کو آپ نے کھولنا ہے۔ تاکہ ایمان الیقین آپ کو حاصل ہو جائے گا۔ علم الیقین سے عین الیقین اور اسکے بعد حق الیقین حاصل ہو جائے۔آپ یقین کی اُس منذل پہ پہنچ جائیں جہاں شک شبہ کرنہ مار سکیں۔*
*لیکن یہاں بھی یہی کہا گیا ہے " زرا آپ آیت مبارکہ پر غور کریں۔ بیناۃہیں کسی شک و بشہ کے بغیر کھلی کھلی نشانیاں ہیں۔بلکل بیناۃ ہیں اِس میں کوئی ترّدُد نہیں ہیں۔ فزیکل جو آیت ہیں کوئی کچھ سوچے گا کوئی کچھ سوچے گا اُس کے اندر ترّدُد آ سکتا ہے۔شک آ جاتا ہے۔ کچھ متشابہات ہیں کچھ بلکل واضع ہیں۔ یہ جو آیتیں ہیں سینے کے اندر ہیں۔یہ تو بلکل کھلی آیتیں ہیں۔کوئی ترّدُد نہیں۔ اِن سے ایمان حاصل ہوتا ہے۔اِن سے رحمت اورقوت اللہ تعالیٰ سے حاصل کر سکتے ہیں۔*
*مراقبے کے دو حصّے ہیں۔*
*پہلا حصہ :آپ نے اپنے رسیونگ سسٹم کو پہلے ری ایکٹیویٹ کرنا ہے ،جو شیطان نے گناہ کرا کر غفلتوں کی وجہ سے چوک اپ (بند) کر دیاہے ۔ یہ سینے کے اندر موجود ہیں۔ ترجم:غالب آگیا اِن کے اوپر شیطان یہ اللہ کا ذکر بھول گئے۔بھئی ذکر اندر موجود ہے بھولے بیٹھے ہیں۔اُس کو ری کال کرنا ہے اُس کو یاد کرانا ہے۔ آپنے اپنے اِن لطائف پر پوری توجہ کر کے آپریٹ کر لینا ہے، چلا لینا ہے۔*
*دو سرا حصّہ: جب آپ کا ریسیونگ سسٹم یعنی ساری لطائف چلنے لگ جائیں گے۔ تو کیا ہو گا، آپ کے یہ سارے لطائف اللہ سے رحمت وصول کرنا شروع کر دیں گے۔اُس رحمت سے آپ کو تہذیبِ نفس ملے گا اُورآپ کے کردار اُور سیرت کے اندر تبدیلی آئے گی۔آپ کو سکون حاصل ہوگا ،اعتماد حاصل ہوگا۔ اُورمایوسیاں دور ہوں گی۔اورآپ کی اٹیچ مینٹ اللہ کے ساتھ ہو جائے گی۔جس کو تعلق با اللہ تعلق مع اللہ کہتے ہیں۔ہر وقت آپ اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے ،اور آپ کو رِسپانس حاصل ہو جائے گا۔ آپ مایوسیوں سے نِکل آئیں گے ان شاء اللہ ۔*
*مراقبے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی پوری توجہ کو اپنے لطائف کی طرف لانا ہے۔ اَب لطائف ہم کیسے ایکٹو کریں گے ہم روحانی طور پر یہ تصور کر کے بیٹھے ہیں کہ یہ جو ہمارا لطیفہ قلب ہے۔وہ رسولِ کریمﷺ کے لطیفہ قلب کے سامنے خم ہَے۔ جیسے سورج سے ہمیں روشنی آتی ہَے۔ اِسی طرح اُس لطیفے سے ہمیں فیض جزب ہو رہا ہَے۔*
*پہلے آپ آخری قُل پڑھ لیں یہ شیطان سے پرو ٹیکشن کے لیے ہے۔تاکہ آپ کی حفاظت ہو جائے۔ اِس کے بعد یکسوئی کے ساتھ اُس مرحلے میں آہستہ آہستہ جانے کیلئے ۳دفعہ کوئی بھی چھوٹا یا لمبا جیسا آپ کو پسند ہے درود شریف پڑھیں۔ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ روضہ رسولﷺ کے سامنے آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔اَور یہ درود آپ پڑھ رہے ہیں۔یکسوئی کے ساتھ پڑھتے پڑھتے آپ نے پھر درود بھی پڑھنا بند کر دینا ہے۔ اَوریہ تصور کرنا ہے آپ کے لطائف حضور اقدسؐﷺ کے لطائف مبارکہ کے با لمقابل ہیں یا میں روضہ رسولﷺ کے سامنے ہوں ، وہاں سے فیض آرہا ہے، آرہا ہے، آرہا ہے۔ اور آپ نے پوری کی پوری توجہ اپنے لطائف پر کر دینی ہے۔ کہ میرے لطائف اللہ اللہ اللہ کی رِدھم سے چلنا ہے، شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ذہن سے آپ نے پوری کی پوری توجہ اپنے لطائف پر ڈالنی ہے۔دیکھں نا یہ توجہ ایک بہت بڑی چیز ہے کوئی تصور کر سکتا ہے کہ لوہا آسمان کے اوپر تیرنا شروع کر دے گا۔ کبھی بھی کوئی تصور کر سکتا تھا۔ لیکن یہ جب اِنسان نے سوچا اُور جہاز کی شیپ میں لے کے اوپر آسمان پہ اُڑادیا تو یہ تصور حقیقت بن گیا۔اِس لیئے آپ نے زہن سے پوری قوت کے ساتھ تصور کو دل کی طرف کھینچنا ہے اور تصور کرنا ہے کہ میرا دل اللہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ یہ توجہ سے آپ نے چلانا ہے پھر لطیفہ روح کی طرف آجانا ہے اِس کو کھولنا ہے، پھرتیسرے کو کھولنا ہے۔ یہ سری ہے چوتھا خفی ہے۔ پا نچواں اخفاء ہے ،پھر ماتھے پر نفس اُور سَر پر سُلطان الاذکار ہے۔ اِس میں ساری کی ساری محنت آپ نے توجہ پر کرنی ہے۔ اِس محنت کے ساتھ کوئی مشاہدہ حاصل ہوتا ہے تو ہو جائے۔ لیکن فیِ الحال پہلے مراحِل کے اندر لطائف کا چلنا ضروری ہےَ۔مشاہدہ اگر قدرتی طور پر حاصل ہو رہا ہے تو کوئی بات نہیں۔میرے عرض کرنے کامطلب ہے ریکوائیرمینٹ فی الحال مشاہدے کی نہیں ہے۔ ریکوائیرمینٹ اِس چیز کی ہے کہ سارے لطائف اللہ کے ذکر کے ساتھ چلنے لگ جائیں۔ یہ لطائف آپ کے اندر موجود ہیں۔یہ آپ نے چلانے ہیں یہ آپ کو وَدّیعَت کر دیئے گئے ہیں۔ دوسرا مرحلہ جو ہے۔ وہ آپکے اندر موجود نہیں ہیں۔آپ کو اوپر سے رحمت آرہی ہےَ۔ اِس دوسرے مرحلے میں آپ نے فیض حاصل کرنا ہے۔ فیض کہتے ہیں رحمت کو اِنرجی کو۔ جو آپ کی روح کی ریکوائیر مینٹ ہیں وہ تمام جو آپ کی روح کے مطالبات ہیں۔ اُس کا نام فیض ہے۔ رحمت ہے وہ آپ نے حاصل کرنا ہے۔ اُس کیلئے ہم نے پھر وہی نیّت کرنی ہے کہ ہم نے اپنا پوائینٹ آف کنسٹریشن یا توجہ کا مرکز اُس جگہ کو رکھنا ہے جہاں رحمت برس رہی ہے۔یا آپ روضہ رسول کی طرف اپنا دھیان رکھیں یا خانہ کعبہ کی طرف۔بعض اوقات آپ کو مراقبہ کرتے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ آپکی روح کا رُخ اِس طرف ہے۔ بہتر ہے کہ اگر میں آپ کو روضہ رسولﷺ کی طرف تصور کا کہہ رہا ہوں اُور مراقبہ میں آپ کو کعبہ کاتصور آجاتا ہے۔ تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کا تصور کعبہ کی طرف ہے تو کعبہ ہی کے اوپر اپنا دھیان جمائیں اُور وہاں سے فیض حاصل کریں۔ اگر آپ کا دھیان کہیں بھٹک رہا ہے تو آپ واپس روضہ رسولﷺ پرتصور قائم کریں، بحر حال کسی نہ کسی رحمت کے مرکز کا تصور کر کے آپ کو بیٹھنا ہے، کہ وہاں جو رحمت آرہی ہے اُس کی ایک ڈور میری دل کی طرف آرہی ہےَ۔اُس ذریعے سے جو وہاں موجود ہے۔ تو یہ تصور آپ کو کر کے بیٹھنا ہے.*
*مراقبہ کے ذریعے روحانی ادراک کی بحالی کے لیے بنیادی اجزا:*
*سورہ ق میں بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا گیا ہے۔*
*اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْب’‘ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْد’‘ (سورہ ق:37)*
*ترجمہ:بیشک اس میں انتباہ اور تذکر ہے اس شخص کے لیے جو صاحب دل ہے(یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)یا کان لگا کر سنتا ہے (یعنی توجہ کویک سو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے) اور وہ (باطنی)مشاہدہ میں ہے(یعنی حسن و جمال الوہیت کی تجلیات میں گم رہتا ہے)۔*
*مراقبہ کا مقصد عین الیقین اور حق الیقین حاصل کرنا ہے۔ قران کریم اس غیر متدلل (جس کے اوپر کوئی دلیل نہ ہو)گواہی کی یاد دہانی یا روحانی جہان الہامی آثار کے علم کے ادراک کو بیدار کرنے کے لئے جو مختصر اور جامع طریقہ بتاتا ہے اس کے تین اجزاء ہیں:*
*۱۔ وہ اس علم کی چاہت طلب والا دل تو رکھے۔روحانی مشاھدوں کا شوقین اور اس کی فہم کا طالب صادق تو ہو۔اللہ اور اس کے حبیب کی محبت کی طلب اس کے دل کے گوشے میں کہیں موجود تو ہو۔محض یکسر مسترد کر دینے والا نہ ہو جو بغیر ثبوت حاصل کئے اور ان کی تگ دو کئے بغیر انکاری نہ ہو*
*۲۔ دل /سینہ کی طرف پورے کان/ توجہ لگا دے ہمہ تن گوش رہے*
*۳۔ذہن کو مرتکز کرے، یعنی ذہنی طور پر حاضر رہے۔ذہن ادھر ادھر اس ارتکاز کے دوران بھٹکتا نہ پھرے بلکہ دل /سینہ پر القاء ہونے والی کیفیت کو رسیو کرے اور ان کی قلبی انٹر پٹیشن قبول کرے۔*
```There are three components of meditation to recall witness:
1۔1-Heart Spiritual Wisdom
(hearing) 2-Full attention towards heart
3-Mental Presance```
*خلاصہ یہ ہے کہ مراقبہ کے تین اجزا ہیں:*
*۱۔ ذکر*
*۲۔ فیض (توجہ)*
*۳۔ استغراق*
*۱)جب آپ مراقبہ کرتے ہیں انتظار فیض کرتے ہیں تو آپ کو تصور کے ساتھ اپنے لطائف کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے اور اللہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔جس سے وہ لطائف جو پہلے ہی چل رہے ہوتے ہیں مزید تیز ہو جاتے ہیں یا محسوس ہو جاتے ہیں*
*۲)جب آپ کو فیض/توجہ ملنے لگتی ہے تو آپ کو لطائف متوجہ ہو کر تیزہو کر اس فیض کو ریسیو کرنے لگتے ہیں جیسے لطائف کو گرپ میں لے کر تیز کردیا گیا ہو۔ اس فیض/توجہ کے حصول کے ساتھ ہی آپ کے لطائف رسپانس دینے لگتے ہیں اور ٹھنڈک، حدت، خوشبو وغیرہ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اسی حد تک ذکر مراقبہ کا حکم ہے۔ان دو کیفیات کے ساتھ آپ تصور میں اپنے آپ کو ڈوبتا محسوس کرتے ہیں کہ تصور میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں، حجر اسود کے بوسے دے رہا ہوں یا روضہ رسول کے ساتھ ہوں۔*
*۳)مندرجہ بالا دو کیفیات ذکر و فیض کے بعد اچانک آپ کا ذہن ایک خاص لمحہ میں بالکل خیالات سے پاک ہو کر خالی/blank ہو جاتا ہے اور آپ استغراق کی حالت میں یا مشاھدہ میں چلے جاتے ہیں یا نیند کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔*
*یاد رکھیں لطائف آپ کے اندر ہیں ان کو آپ کی توجہ ہی سے چلنا ہے، جب کہ فیض خارج سے /باہر سے آنا ہے جو آپ کی چاہت طلب اور مانگنے اور تصور پر منحصر ہے۔اصل مطلوب ذکر و فیض ہے۔*
*مراقبہ میں روح کی حرکات کا مشاہدہ:*
*یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مراقبہ روحانی محبت کی ایکٹیویٹی ہے۔مگر روح الگ تو نہیں روح تو آپ کے ہر اعضا سے جڑی ہے۔ لہذا روح کا فیض اعضا کے زریعہ روح میں جذب ہو گا۔دوسری بات یہ ہے کہ روح معصوم بچے کی طرح سپانٹینیس (بے دھڑک بلا جھجک) رد عمل دیتی ہے۔اس سے آپ کی عقلی تاویلات اور محدودات کا کوئی تعلق نہیں۔تو پھر آپ اس کو آبزرو کریں بغیر ٹوکے۔جیسے معصوم بچہ کی تمام ایکٹیویٹی معصومانہ ہوتی ہیں۔*
*لطافت وجود بذریعہ ذکر قلبی و وجودی:*
*جب اللہ کا ذکر مومن کے وجود کے ہرذرے میں سرائیت کر جاے اور اللہ کی محبت کا فیض اس کو لپیٹ لے۔تو جلد میں ایک عجیب سی نرمی لطافت اورریشم کی طرح ملائمت پیدا ہو جاتی ہے لگتا ہے وجود دودھ اور شہد سے بنا ہے اورمعصوم بچے کے وجود کی طرح ہو گیا ہے۔قرب و وصال کا لطیف احساس وجود کے اندر عجیب ٹھنڈک اور لطف دوڑا دیتا ہے۔اللہ کی محبت کی ایک لطیف سی چادر وجود کے لطیف حصوں پر لطافت پیدا کرتی ہے۔اس کیفیت کا تذکرہ سورۃ الزمر میں ایسے کیاگیا ہے:* *
*“ثم تلین جلودہم و قلوبھم الی ذکر اللہ”*
*پھرنرم(ملائم) ہو جاتی ہیں جلدیں اور دل ان کے اللہ کا ذکر کرتے ہوے۔*
*اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے*
*دل کے دروازے پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ*
*یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق*
*ڈھل گیا ہجر کا دن آبھی گئی وصل کی رات

0 Comments