Recents in Beach

عورت بچاؤ مہم_***

ڈاکٹر حاملہ خواتین کو بہت زیادہ کشتے کھلارہے ہيں ۔ ca اور آئرن کے suppliments کو حکمت میں کشتہ کہتے ہیں ان سے بچیں...

جس نے بھی یہ تحریر لکھی ہے اس نے حقائق لکھے ہیں اکثر حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو شدید مسائل کا شکار ہوتے دیکھا ہے اس تحریر میں اس کی وجوہات واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں

*** عورت بچاؤ مہم_***
****************************
ایک دوست کا سوال :
آج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ہوتی ہیں ۔
حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال ،طبی سہولیات میسر ہیں ۔۔۔
جب کسی خاتون کو امید هوتی ھے تو وہ فورا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں
🧬 نو ماہ اس کے زیر نگرانی باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیں
اس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں
ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں ۔۔۔
مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ہے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ہوتا ۔۔؟؟
نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے ۔۔۔اورvenofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجود ۔۔۔۔
ڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔؟؟

میرے عزیزو !

اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ
۔۔ڈیلیوری نارمل نہ ونے کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔ مسکولر ٹشوز کا سخت ہونا،
اور رطوبت تلیہ۔Lyphatic liquids کا کم ہونا ہے

*** یاد رکھیں***
*************

عورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ہو گی بچہ کے اتنے ہی چانسز نارمل کے ہوں گے
اور جتنے سختھوں گے اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ھو گا-

مندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت تلیہlympatic liquids بھی کم ہو جاتی ہے
جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلیں گےتو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی !
یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سےہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ہے ۔۔قطع نظر اس کے کہ
بہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں ،
ہسپتال ہیں ۔۔۔
مہنگے ڈاکٹرز ہیں ۔۔
مہنگی ادویات اور مہنگے انجکشنز۔۔۔
ایئر کنڈیشنڈ کمرے۔۔۔

*** یاد رکھیں***
——————

یہ سب کچھ کبھی بھی فطرت کا متبادل نہیں ہو سکتے۔۔۔ پیسے کا لالچ اور ہوس اور انسانیت سے دوری۔۔۔۔
مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ہونا دوسری بڑی وجہ ہے۔۔۔ عورتوں کا سہل پسند ہونا اور یہ تصور کہ حمل ہو جانے کے بعد کام نہیں کرناہے
سارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجائے ۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔
فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجائے اگر مخصوص ورزش خصوصا آخری مہینوں میں کی جائے
یا گھر کے کام کاج کیے جائیں ۔۔جیسے جھاڑو دینا ۔۔۔
ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔
اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی
جس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔
🧬خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگائے جائیں گے
تو یہ لوہا ہونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہائی زیادہ سخت کرے گا
کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ہے
جس سے راستہ کھلنے کے بجائے اور زیادہ تنگ ہو جائےگا ۔۔۔
اس کی جگہ اگر
کالے چنے
مربہ ھڑڑ
مربہ املہ
مربہ بہی
سیب
پالک
ساگ
کلیجی
دودھ
انڈا
شھد
گھی
منقی
آڑو
لونگ
دارچینی
بادام
زعفران
کا استعال کیا جائے
تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگا
اور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ھونے کے بجائے طاقتور اور نرم ہو ں گے خوبصورت بچے پیدا ہوں گے ۔۔
اور گارنٹی سے کہتا ہوں لکھ کر دینے کو تیار ہوں بچہ بھی خوبصوت پیدا ہو گا ۔ دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں ۔۔ نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت ہوں جاتی ہیں۔۔۔۔۔
تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت ۔۔ہڈیاں بھی سخت ۔۔
اسی لیے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ھے کہ
بچے کا سر بڑھا ہوا ہے
ماں کی ہڈی بڑھی ہوئی ہے اپریشن ہی ہو گا۔۔۔
بھائی: نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ہے
کیونکہ اس سے کمائی زیادہ ہے آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں نارمل سے کیا ملناہے؟؟
———————-
۔۔۔اگر قدرتی کیلشیم
دودھ
دھی
انڈے
گھی
کھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ھوں کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی
اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتیں مگر۔۔بڑھتی نہ
۔۔سخت نہ ہوتیں
ہاں !!! دکان کی سیل کم ضرور ہو جاتی
کمیشن ضرور کم ھو جاتا۔۔۔
سٹور کی سیل کم ھو جاتی
آپس میں لڑائی ضرور بڑھ جاتی
بنک بیلنس کم ھو جاتا ۔
آمدنی کم ھونے کی وجہ سے۔۔۔
کیونکہ عملی طور پر ہمارا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ہے
تقریروں اور گفتگو میں 1000 فی صد ہے۔۔۔ڈیلوری نارمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ۔۔۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہڈیوں کا سخت ھونا ۔۔مسکولر ٹشوز کا سخت ھو کر ان میں لچک کا کم ہونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ہونا ہے
جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں ۔۔۔ان سب کے لیے آخری ماہ۔۔ صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری مائیں استعمال کرتی آ رہی تھیں
ایک تو جسمانی مشقت اور ورزش تھیں
پاؤں کے بل۔۔۔۔تو دوسری اہم چیز
دیسی گھی ۔
چھواروں
زعفران
کا استعمال تھا ۔۔
دودھ میں ڈال کر۔۔۔
جس میں
فولاد
کیلشیم
گندھک
یعنی حرارت
وافر مقدار میں موجود ھوتی ہیں ۔۔
اس کا چھوڑ دینا ۔۔۔
اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رہنا
اور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانا
اور venifer کے انجکشن لگوانا ہے۔۔۔ پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ھوتا ھے ۔۔اللہ کی پناہ

ایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔۔
جسم دکھایا جاتا ہے ۔۔
چور چمار تک جملے کستے ہیں ۔۔ ۔۔
سلفی بنائی جارہی ھوتی ہیں..

*استغفراللہ۔۔۔۔۔۔۔*

پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ
۔۔نارمل کیسز کو کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ھے۔۔۔ ایک اور ظلم
جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ھوں ۔۔۔
کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ھوتا ہے
تو اسکا درجہ حرارت ٧٠ سے ٩٠ تک ھوتا ھے ۔۔۔
لیبر روم میں اٸیر کنڈیشن ھونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں ۔۔۔یہ ساٸنس کا اصول ہے
کہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرار ت سے پھیلتی ہیں۔۔۔۔
کمرے میں ١٦ درجہ کا ٹمپریچر ھونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا ؟؟
یقینا سکڑے گا تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ھو گی یا رکاوٹ؟؟
یقینی جواب ھے رکاوٹ ۔۔۔
۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
نازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی ۔۔۔۔
لہذا مریض جائے بھاڑ میں
یا موت کے منہ میں ۔
آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتی
ڈاکٹر ہو کر اس کی ناک پر پسینہ آجائے ۔۔
اتنا بڑا ظلم ۔۔۔
حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہیں
لیبر روم کا صفائی والا عملہ
اس کا نخرہ
اور اس کا رعب
اللہ کی پناہ ۔۔۔
وہ آسمان پہ ہوتا ہے۔۔۔
مگر سلام ہے
ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینوں پیسنی ھو کر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں
گھر میں ہی۔۔۔۔ اسی سلسلے میں ایک اور مسئلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور incobeter میں ڈالنا۔۔۔۔۔
پیارے بھائیو!
جب بچہ تقریبا ٨٠ ۔۔٩٠ کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پے آئے گا
تو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ھو گا۔۔؟ پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی سے لگاتے ہیں ۔۔
جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے وہ ایک الگ کہانی ھے۔۔۔ پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جائے ۔۔۔
ظلم پہ ظلم ۔۔۔
ڈاکے پہ ڈاکہ ۔۔۔
اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروں
کہ پھل جب پکتا ھے تو خود بخود نیچے گرتا ہے۔۔
دردیں قدرتی اور فطری ھونی چاہیے ۔
یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ھے دشمن نہیں
مصنوعی دردیں کہ ۔۔
گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جائے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گے
تو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ھے پھر نتائج تو بھگتنا پڑیں گے ۔۔۔۔۔
سزا تو ضرور ملے گی
فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔۔۔ پھر یاد رکھ لیں
بچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں ۔۔۔
وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیں
کیو نکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ھوتا ھے
جس سے وہ انیمیا کا شکار ھو جاتے ہیں ۔ ۔۔ *المختصر* ۔۔۔۔
فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزا زیادہ ملے گی
اس موضوع پر بہت کچھ ھے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ھو دکانداروں کو۔۔۔
لیکن میرے پیارے بھاٸیو!
یہ ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے

اس کو اتنا like .اور share کیجیے comment کیجیے کہ یہ
*عورت بچاو مہم*
بن جائے ۔۔۔
اور حکمران scandanaviyan belt
کی طرح سخت قوانین بنانے پر مجبور ہو جائیں
سوشل میڈیا کی طاقت سے جہاں پر
خاوند لیبر روم میں موجود ہوتا ہے۔۔۔
ہمارے ہاں تو اس کی زیادہ ضرورت ہے ۔۔
حتی المقدور نارمل کیس کی کوشش کی جاتی ھے آخری حد تک۔۔
ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا
مصنوعی دردوں کے انجکشن نہیں لگوائے جاتے ۔۔
بلکہ قدرتی دردوں کو برداشت کرنے کا کہا جاتا ہے ۔۔۔
ھمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔۔
*فرانس میں ہر حاملہ خاتون اور بچوں کو قانونا چنے روزانہ کھلائےجاتے ہیں*
*فولاد کی کمی پوری کرنے کےلیے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟*

Post a Comment

0 Comments

Search This Blog

Blog Archive

مضامین

Pages

Formulir Kontak

Name

Email *

Message *